قطر بحران 2018ء تک طول پکڑ سکتا ہے: حزب اختلاف
الأحد / 19 / ذو الحجة / 1438 هـ الاحد 10 سبتمبر 2017 02:23
عکاظ اردو جدہ
خلیج کا سفارتی بحران 2018ء تک طول پکڑ سکتا ہے اور اس دوران میں قطر میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی قلت ہوجائے گی اور اس خلیجی ریاست میں سول بد امنی شروع ہوسکتی ہے۔
یہ ایک خصوصی تحقیقی پیپر کا ماحصل ہے جو ’’قطر : عالمی سلامتی اور استحکام کانفرنس ‘‘کے منتظمین نے شائع کیا ہے۔یہ کانفرنس لندن میں 14 ستمبر کو منعقد ہورہی ہے۔اس پیپر میں یہ کہا گیا ہے کہ اس بحران کے جلد خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ خلیج تعاون کونسل کے تین رکن ممالک سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ مصر نے پانچ جون سے قطر کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ان چاروں ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام عاید کیا تھا اور اس کو بائیکاٹ کے خاتمے کے لیے تیرہ شرائط پیش کی تھیں مگر اس نے یہ شرائط تسلیم نہیں کی ہیں۔
اس مطالعے کے مطابق ان چاروں ممالک کے معاشی مقاطعے سے قطر میں نمایاں اقتصادی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہاں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی قلت ہوچکی ہے۔سماجی افراتفری کے آثار نمودار ہورہے ہیں اور قطری سکیورٹی فورسز کی جبر واستبداد کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
قطری حزب اختلاف کے ترجمان خالد الحائل نے کہا ہے کہ ’’ اس آزادانہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قطری عوام بائیکاٹ کے بعد کیسے مسائل کا سامنا کررہے ہیں‘‘۔
کانفرنس کے منتظمین کے مطابق لندن میں ہونے والے اس اجتماع میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی سیکڑوں نامور سیاسی شخصیات ، پالیسی ساز ، ماہرین تعلیم ، تبصرہ نگار اور قطری شہری شرکت کریں گے اور وہ قطر میں جمہوریت ،انسانی حقوق کی صورت حال ، پریس کی آزادی اور انسداد دہشت گردی ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کریں گے۔اس کانفرنس کا اہتمام قطر کی اصلاح پسند شخصیت الحائل اور دیگر متعدد اصلاح پسند قطریوں نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقائی بحران کا خاتمہ اور قطر کا مستحکم مستقبل چاہتے ہیں۔
یہ ایک خصوصی تحقیقی پیپر کا ماحصل ہے جو ’’قطر : عالمی سلامتی اور استحکام کانفرنس ‘‘کے منتظمین نے شائع کیا ہے۔یہ کانفرنس لندن میں 14 ستمبر کو منعقد ہورہی ہے۔اس پیپر میں یہ کہا گیا ہے کہ اس بحران کے جلد خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ خلیج تعاون کونسل کے تین رکن ممالک سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ مصر نے پانچ جون سے قطر کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ان چاروں ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام عاید کیا تھا اور اس کو بائیکاٹ کے خاتمے کے لیے تیرہ شرائط پیش کی تھیں مگر اس نے یہ شرائط تسلیم نہیں کی ہیں۔
اس مطالعے کے مطابق ان چاروں ممالک کے معاشی مقاطعے سے قطر میں نمایاں اقتصادی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہاں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی قلت ہوچکی ہے۔سماجی افراتفری کے آثار نمودار ہورہے ہیں اور قطری سکیورٹی فورسز کی جبر واستبداد کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
قطری حزب اختلاف کے ترجمان خالد الحائل نے کہا ہے کہ ’’ اس آزادانہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قطری عوام بائیکاٹ کے بعد کیسے مسائل کا سامنا کررہے ہیں‘‘۔
کانفرنس کے منتظمین کے مطابق لندن میں ہونے والے اس اجتماع میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی سیکڑوں نامور سیاسی شخصیات ، پالیسی ساز ، ماہرین تعلیم ، تبصرہ نگار اور قطری شہری شرکت کریں گے اور وہ قطر میں جمہوریت ،انسانی حقوق کی صورت حال ، پریس کی آزادی اور انسداد دہشت گردی ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کریں گے۔اس کانفرنس کا اہتمام قطر کی اصلاح پسند شخصیت الحائل اور دیگر متعدد اصلاح پسند قطریوں نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقائی بحران کا خاتمہ اور قطر کا مستحکم مستقبل چاہتے ہیں۔