مینمار کی سوچی جی، کچھ توسوچئے!
الجمعة / 24 / ذو الحجة / 1438 هـ الجمعة 15 سبتمبر 2017 03:15
عکاظ اردو جدہ
گزشتہ تین ہفتوں سے میانمار کی بدھسٹ اکثریت کے ہاتھوں وہاں کی روہنگیا مسلم اقلیت کا قتلِ عام جاری ہے، جبکہ دولاکھ سترہزار کے لگ بھگ روہنگیا پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اوران میں سے بھی بہت سے مہاجرین بنگلہ دیش-میانمار بورڈرپر برمی فوج کے ہاتھوں ماردیے گئے۔ایک خاتون جو اپنی گود میں ایک بچے کوسنبھالے ہوئے تھی، اس نے نیویارک ٹائمس کے رپورٹرکو بتایاکہ ’’بدھسٹ دہشت گردہم پربے تحاشا گولیاں چلارہے ہیں، انھوں نے ہمارے گھروں کونذرِ آتش کیا، میرے شوہر کوماردیااور ہم سب کوجان سے مارنے کی کوشش کی‘‘۔
آنگ سان سوچی جوخود ایک بیوہ عورت ہیں، انھوں نے ایک عرصے تک میانمار کے آمروں کو چیلنج کیا، مسلسل پندرہ سال تک نظربند رہیں اور جمہوریت کے لیے مہم چلائی، انھیں جدید عہدکی’’ ہیرو‘‘سمجھاجارہاتھا، مگرمیانمار کی سربراہِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے آج یہی سوچی اپنے ملک میں ہونے والی نسلی تطہیر کا دفاع کررہی ہیں اور میانمار کے سیاہ فام روہنگیاشہریوں کودہشت گرد اور غیر قانونی شہری قراردیا جارہاہے۔ویسے میانمارمیں جوکچھ ہورہاہے اس کے لیے ’’نسلی تطہیر‘‘کا لفظ بھی معمولی ہے۔
بودھ دہشت گردی کی نئی لہر کے شروع ہونے سے پہلےYale Law Schoolکی ایک رپورٹ میں یہ کہاگیا تھا کہ میانمار میں روہنگیا کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے، اسے’’قتلِ عام‘‘قراردیا جانا چاہیے۔ U.S. Holocaust Museumنے بھی اندیشہ ظاہر کیاتھاکہ مستقبل قریب میں روہنگیا کے قتلِ عام کی نئی لہر شروع ہوسکتی ہے۔ محترمہ سوچی!یہ کتنی شرم کی بات ہے، ہم نے آپ کی عزت افزائی کی، ہم آپ کی آزادی کے لیے لڑے اور اب آپ اپنی آزادی کو اپنے ہی شہریوں کے مارکاٹ کے لیے استعمال کررہی ہیں ؟انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارہ Fortify Rightsکے چیف ایگزیکیٹیومیتھیواسمتھ نے بنگلہ دیش بورڈرپر روہنگیا مہاجرین سے انٹرویوکرکے واپس آنے کے بعد مجھے بتایا کہ برمی فوج بچوں کوقتل کررہی تھی، ان کا تاثرتھا کہ وہ لوگ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔
کسی طرح بچ جانے والے ایک روہنگیانے اسمتھ کوبتایاکہ اس کے سامنے اس کے دوبھتیجوں کاسرکاٹاگیا، ان میں سے ایک چھ جبکہ دوسرا نوسال کا تھا۔بعض دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ میانمارکے فوجی شیرخوار بچوں کو ندیوں میں پھینک رہے تھے، جبکہ بوڑھی عورتوں کے سرکاٹ رہے تھے۔میری کولیگ حنہ بیچHannah Beech نے میانمار سے واپسی کے بعد مجھے بتایا کہ انھوں نے پہلے بھی پناہ گزینوں کے ایشوز کوکورکیا ہے، مگر یہ ان میں سب سے بدترین تھا۔ حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ معاملہ یک طرفہ ہے؛کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حالیہ تشدد25اگست کوبعض روہنگیا شدت پسندوں کی جانب سے متعدد پولیس اسٹیشنز اور ملٹری بیس پر حملے کے بعد شروع ہوا ہے۔
مگرسیکڑوں لوگوں کامانناہے کہ اس مہم میں بے شمار بے قصور روہنگیا کوقتل کیاگیا ہے، جبکہ میانمار کی سربراہ سوچی فوج کوقابو کرنے کی بجاے عالمی فلاحی اداروں پر الزام تراشی کررہی ہیں، ان کاکہناہے کہ ان اداروں نے دہشت گردوں (روہنگیا)کی مدد کرنے کے لیے گمراہ کن معلومات کاپہاڑ کھڑا کررکھاہے۔جب ایک بہادرروہنگیا خاتون میڈیاکے سامنے اپنے شوہر کے قتل اور اپنی اجتماعی عصمت دری کی دلخراش رودادبیان کرتی ہے، توسوچی کے فیس بک پیج پراسے’’فیک ریپ‘‘قراردے کرتمسخراڑایاجاتا ہے۔روہنگیا کے بارے میں اپنے ساتھ ہونے والی سوچی کی ایک گفتگوکی روشنی میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ انھیں غیر ملکی اور میانمار کے لیے خطرناک سمجھتی ہیں، مگرساتھ ہی ہمیں اس حقیقت کابھی ادراک ہے کہ سوچی جیسی ’’انسانیت واخلاق‘‘کی علمبردارخاتون اب ایک سرگرم سیاسی لیڈرہے اوراسے خطرہ ہے کہ اگر اس نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کچھ بولا، تواس ملک میں اسے سیاسی خساروں سے دوچا ہونا پڑسکتاہے، جہاں کی اکثریت روہنگیا اقلیت کی کٹر دشمن ہے، شاید اس لیے بھی وہ روہنگیا کے حق میں نہیں بولتی۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹیوڈائریکٹرKen Rothکاکہناہے’’جب آنگ سان سوچی کونوبل پرائزبرائے امن ملاتوہمیں خوشی ہوئی تھی؛کیوں کہ وہ عالمی سطح پرظلم و جبر کے خلاف صبر و استقامت کی علامت کے طور پر ابھری تھی، مگر آج جبکہ اسے سیاسی اقتداروغلبہ حاصل ہے، توخود پوری بے غیرتی کے ساتھ روہنگیا پرکیے جانے والے ہلاک کن مظالم میں ہاتھ بٹارہی ہے‘‘۔معروف سماجی کارکن اور نوبل ایوارڈیافتہ پاپ Desmond Tutuنے سوچی کوایک دردناک کھلا خط لکھاہے(جومختلف انٹرنیشنل پرنٹ وبرقی اخبارات میں بھی شائع ہوا)اس میں وہ لکھتے ہیں ’’میری پیاری بہن!اگر میانمارکے اعلیٰ ترین سیاسی منصب تک تمھاری رسائی کی قیمت تمھاری یہ خاموشی ہے، تویہ بہت مہنگی قیمت ہے‘‘۔
میانمار میں غیرملکیوں کے داخلے پر تقریباً پابندی ہے، مگر گزشتہ چند سالوں کے دوران میں نے وہاں کے دواسفار کیے ہیں، اس دوران میں نے دیکھا کہ روہنگیا شہریوں کوحراستی کیمپوں یادوردراز کے گاؤں میں مقیدکرکے رکھاگیا تھا، بہتوں کو طبی سہولت تک حاصل نہیں تھی، جبکہ بچوں کے لیے اسکول کے دروازے بند تھے، یہ اکیسویں صدی کی جنسی و نسلی تفریق کی بدترین مثال ہے!اس دوران میں ایک 23؍سالہ خاتون منیرہ بیگم سے ملا، جس نے علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچے کوکھو دیا تھا، ایک پندرہ سالہ ذہین لڑکی سے بھی میری ملاقات ہوئی، جوڈاکٹر بننا چاہتی تھی، مگراس کے خواب میانمار کے سرکاری کیمپ میں ریزہ ریزہ ہورہے تھے، میں نے ایک دوسالہ بچے کوبھوک سے تڑپتے ہوئے دیکھا، جس کی ماں علاج نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوچکی تھی۔
سوچی اور میانمار حکومت کو لفظِ’’روہنگیا‘‘کے استعمال سے سخت احتراز ہے، ان کا اصرار ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی نسل کے ہیں اور میانمارمیں غیر قانونی طورپررہ رہے ہیں، حالاں کہ ان کا یہ دعویٰ حیران کن اور قطعی غیر معقول ہے؛کیوں 1799ء کی تاریخی دستاویز سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی روہنگیا آبادی میانمارمیں موجود تھی۔ امریکی سینیٹرجان میکن اورڈک ڈربن نے روہنگیامسلمانوں پر مظالم کی مذمت اورانھیں بند کروانے کے لیے سوچی پردباؤ ڈالنے کے مقصد سے ایک مشترکہ ریزولیشن تیارکیا ہے، مجھے امید ہے کہ صدرڈونالڈٹرمپ بھی اس اہم مسئلے پر بولیں گے۔
ہمیں پتاہے کہ میانمار حکومت پر عالمی دباؤکا اثر ضرور پڑے گا؛کیوں کہ انھیں آج جوآزادی حاصل ہے، وہ عالمی حمایت وتائیدہی کانتیجہ ہے۔تاہنوز عالمی سطح پر روہنگیا مسلمانوں کے حق میں بہت کم آوازیں اٹھ رہی ہیں، البتہ ہم پاپ فرانسس کی تحسین کرتے ہیں، جنھوں نے تمام عالمی لیڈروں پرسبقت حاصل کرتے ہوئے سب سے پہلے(27؍اگست کو)روہنگیا مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی؛کیوں کہ تاریخ کا عام سبق ہے کہ اگر ممکنہ قتلِ عام کونہ روکا جائے، تودنیامیں مظلوموں ہی کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے۔
آنگ سان سوچی جوخود ایک بیوہ عورت ہیں، انھوں نے ایک عرصے تک میانمار کے آمروں کو چیلنج کیا، مسلسل پندرہ سال تک نظربند رہیں اور جمہوریت کے لیے مہم چلائی، انھیں جدید عہدکی’’ ہیرو‘‘سمجھاجارہاتھا، مگرمیانمار کی سربراہِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے آج یہی سوچی اپنے ملک میں ہونے والی نسلی تطہیر کا دفاع کررہی ہیں اور میانمار کے سیاہ فام روہنگیاشہریوں کودہشت گرد اور غیر قانونی شہری قراردیا جارہاہے۔ویسے میانمارمیں جوکچھ ہورہاہے اس کے لیے ’’نسلی تطہیر‘‘کا لفظ بھی معمولی ہے۔
بودھ دہشت گردی کی نئی لہر کے شروع ہونے سے پہلےYale Law Schoolکی ایک رپورٹ میں یہ کہاگیا تھا کہ میانمار میں روہنگیا کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے، اسے’’قتلِ عام‘‘قراردیا جانا چاہیے۔ U.S. Holocaust Museumنے بھی اندیشہ ظاہر کیاتھاکہ مستقبل قریب میں روہنگیا کے قتلِ عام کی نئی لہر شروع ہوسکتی ہے۔ محترمہ سوچی!یہ کتنی شرم کی بات ہے، ہم نے آپ کی عزت افزائی کی، ہم آپ کی آزادی کے لیے لڑے اور اب آپ اپنی آزادی کو اپنے ہی شہریوں کے مارکاٹ کے لیے استعمال کررہی ہیں ؟انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارہ Fortify Rightsکے چیف ایگزیکیٹیومیتھیواسمتھ نے بنگلہ دیش بورڈرپر روہنگیا مہاجرین سے انٹرویوکرکے واپس آنے کے بعد مجھے بتایا کہ برمی فوج بچوں کوقتل کررہی تھی، ان کا تاثرتھا کہ وہ لوگ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔
کسی طرح بچ جانے والے ایک روہنگیانے اسمتھ کوبتایاکہ اس کے سامنے اس کے دوبھتیجوں کاسرکاٹاگیا، ان میں سے ایک چھ جبکہ دوسرا نوسال کا تھا۔بعض دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ میانمارکے فوجی شیرخوار بچوں کو ندیوں میں پھینک رہے تھے، جبکہ بوڑھی عورتوں کے سرکاٹ رہے تھے۔میری کولیگ حنہ بیچHannah Beech نے میانمار سے واپسی کے بعد مجھے بتایا کہ انھوں نے پہلے بھی پناہ گزینوں کے ایشوز کوکورکیا ہے، مگر یہ ان میں سب سے بدترین تھا۔ حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ معاملہ یک طرفہ ہے؛کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حالیہ تشدد25اگست کوبعض روہنگیا شدت پسندوں کی جانب سے متعدد پولیس اسٹیشنز اور ملٹری بیس پر حملے کے بعد شروع ہوا ہے۔
مگرسیکڑوں لوگوں کامانناہے کہ اس مہم میں بے شمار بے قصور روہنگیا کوقتل کیاگیا ہے، جبکہ میانمار کی سربراہ سوچی فوج کوقابو کرنے کی بجاے عالمی فلاحی اداروں پر الزام تراشی کررہی ہیں، ان کاکہناہے کہ ان اداروں نے دہشت گردوں (روہنگیا)کی مدد کرنے کے لیے گمراہ کن معلومات کاپہاڑ کھڑا کررکھاہے۔جب ایک بہادرروہنگیا خاتون میڈیاکے سامنے اپنے شوہر کے قتل اور اپنی اجتماعی عصمت دری کی دلخراش رودادبیان کرتی ہے، توسوچی کے فیس بک پیج پراسے’’فیک ریپ‘‘قراردے کرتمسخراڑایاجاتا ہے۔روہنگیا کے بارے میں اپنے ساتھ ہونے والی سوچی کی ایک گفتگوکی روشنی میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ انھیں غیر ملکی اور میانمار کے لیے خطرناک سمجھتی ہیں، مگرساتھ ہی ہمیں اس حقیقت کابھی ادراک ہے کہ سوچی جیسی ’’انسانیت واخلاق‘‘کی علمبردارخاتون اب ایک سرگرم سیاسی لیڈرہے اوراسے خطرہ ہے کہ اگر اس نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کچھ بولا، تواس ملک میں اسے سیاسی خساروں سے دوچا ہونا پڑسکتاہے، جہاں کی اکثریت روہنگیا اقلیت کی کٹر دشمن ہے، شاید اس لیے بھی وہ روہنگیا کے حق میں نہیں بولتی۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹیوڈائریکٹرKen Rothکاکہناہے’’جب آنگ سان سوچی کونوبل پرائزبرائے امن ملاتوہمیں خوشی ہوئی تھی؛کیوں کہ وہ عالمی سطح پرظلم و جبر کے خلاف صبر و استقامت کی علامت کے طور پر ابھری تھی، مگر آج جبکہ اسے سیاسی اقتداروغلبہ حاصل ہے، توخود پوری بے غیرتی کے ساتھ روہنگیا پرکیے جانے والے ہلاک کن مظالم میں ہاتھ بٹارہی ہے‘‘۔معروف سماجی کارکن اور نوبل ایوارڈیافتہ پاپ Desmond Tutuنے سوچی کوایک دردناک کھلا خط لکھاہے(جومختلف انٹرنیشنل پرنٹ وبرقی اخبارات میں بھی شائع ہوا)اس میں وہ لکھتے ہیں ’’میری پیاری بہن!اگر میانمارکے اعلیٰ ترین سیاسی منصب تک تمھاری رسائی کی قیمت تمھاری یہ خاموشی ہے، تویہ بہت مہنگی قیمت ہے‘‘۔
میانمار میں غیرملکیوں کے داخلے پر تقریباً پابندی ہے، مگر گزشتہ چند سالوں کے دوران میں نے وہاں کے دواسفار کیے ہیں، اس دوران میں نے دیکھا کہ روہنگیا شہریوں کوحراستی کیمپوں یادوردراز کے گاؤں میں مقیدکرکے رکھاگیا تھا، بہتوں کو طبی سہولت تک حاصل نہیں تھی، جبکہ بچوں کے لیے اسکول کے دروازے بند تھے، یہ اکیسویں صدی کی جنسی و نسلی تفریق کی بدترین مثال ہے!اس دوران میں ایک 23؍سالہ خاتون منیرہ بیگم سے ملا، جس نے علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچے کوکھو دیا تھا، ایک پندرہ سالہ ذہین لڑکی سے بھی میری ملاقات ہوئی، جوڈاکٹر بننا چاہتی تھی، مگراس کے خواب میانمار کے سرکاری کیمپ میں ریزہ ریزہ ہورہے تھے، میں نے ایک دوسالہ بچے کوبھوک سے تڑپتے ہوئے دیکھا، جس کی ماں علاج نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوچکی تھی۔
سوچی اور میانمار حکومت کو لفظِ’’روہنگیا‘‘کے استعمال سے سخت احتراز ہے، ان کا اصرار ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی نسل کے ہیں اور میانمارمیں غیر قانونی طورپررہ رہے ہیں، حالاں کہ ان کا یہ دعویٰ حیران کن اور قطعی غیر معقول ہے؛کیوں 1799ء کی تاریخی دستاویز سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی روہنگیا آبادی میانمارمیں موجود تھی۔ امریکی سینیٹرجان میکن اورڈک ڈربن نے روہنگیامسلمانوں پر مظالم کی مذمت اورانھیں بند کروانے کے لیے سوچی پردباؤ ڈالنے کے مقصد سے ایک مشترکہ ریزولیشن تیارکیا ہے، مجھے امید ہے کہ صدرڈونالڈٹرمپ بھی اس اہم مسئلے پر بولیں گے۔
ہمیں پتاہے کہ میانمار حکومت پر عالمی دباؤکا اثر ضرور پڑے گا؛کیوں کہ انھیں آج جوآزادی حاصل ہے، وہ عالمی حمایت وتائیدہی کانتیجہ ہے۔تاہنوز عالمی سطح پر روہنگیا مسلمانوں کے حق میں بہت کم آوازیں اٹھ رہی ہیں، البتہ ہم پاپ فرانسس کی تحسین کرتے ہیں، جنھوں نے تمام عالمی لیڈروں پرسبقت حاصل کرتے ہوئے سب سے پہلے(27؍اگست کو)روہنگیا مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی؛کیوں کہ تاریخ کا عام سبق ہے کہ اگر ممکنہ قتلِ عام کونہ روکا جائے، تودنیامیں مظلوموں ہی کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے۔