کلیدِ کعبہ کی «خدمت» روزِ قیامت تک ایک ہی خاندان کے سپرد
الجمعة / 24 / ذو الحجة / 1438 هـ الجمعة 15 سبتمبر 2017 03:17
عکاظ اردو جدہ
فتح مکہ کے موقع پر سنہ 8 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی چابی بنو شیبہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے فرمائی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کے نبی نے اعلان فرما دیا کہ یہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنو شیبہ کے پاس ہی رہے گی اور اس کو ظالم شخص کے سوا کوئی نہ چھینے گا۔ اُس دن سے آج تک بنو شیبہ کے فرزندان ہی کو کعبہ کا کلید بردار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
حرمین شریفین کے امور کے محقق محی الدین الہاشمی کے مطابق تاریخی طور پر خانہ کعبہ کی خدمت کا آغاز حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے زمانے سے ہوا جب ان دونوں باپ بیٹے نے اللہ کے گھر کی بنیادیں قائم کیں۔ خدمت گاری کے امور میں بیت اللہ کو کھولنا ، بند کرنا ، صاف کرنا ، غسل دینا ، اس کا غلاف چڑھانا ، غلاف پھٹ جانے یا ادھڑ جانے کی صورت میں اس کو پھر سے درست کرنا اور بیت اللہ کے زائرین کے استقبال سے متعلق امور کے علاوہ مقامِ ابراہیم کی نگرانی بھی شامل ہے۔
بیت اللہ کے پہلے خدمت گار
الہاشمی کے مطابق ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو کعبے کی خدمت گاری کے علاوہ بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کو پانی پلانے کی ذمے داری بھی سونپی تھی۔ حضرت اسماعیل کی وفات کے بعد جرہم قبیلے نے اُن کی اولاد سے یہ ذمے داری چھین لی۔
کچھ عرصے کے بعد خزاعہ قبیلے نے جرہم قبیلے سے کعبے کی خدمت گاری لے لی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّ امجد قصی بن کلاب نے اس کو واپس لے لیا کیونکہ وہ خود اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ انھیں مکہ مکرمہ کی سرداری ملی اور ساتھ ہی خدمت گاری کی تمام تر ذمے داریاں بھی واپس ہاتھ آ گئیں۔ قصی بن کلاب کے تین بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سب سے بڑے عبدالدار (بنو شیبہ کے جد امجد) تھے ، ان کے بعد عبد مناف (ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد) تھے اور ان کے بعد عبد العزىٰ تھے۔ چوں کہ عبد مناف اپنی دانش مندی ، طاقت اور ٹھوس رائے کے سبب تمام قبائل میں سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے تھے لہذا ان کے والد نے اپنے بیٹے کو کعبے کی خدمت اور دیگر متعلقہ ذمے داریاں سونپ دیں۔ بعد ازاں قصی نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو بھی خدمت گاری کا شرف عطا کرنے کے واسطے کعبے کی کلید برداری عبدالدار کے حوالے کر دی جب کہ حجاج کرام کو پانی پلانے اور کھانا کھلانے کی ذمے داری عبد مناف کے پاس ہی رہی۔
اسلام کے دور میں خدمت گاری اور کلید برداری
محی الدین الہاشمی کے مطابق کلید برداری کی ذمے داری عبدالدار کے سب سے بڑے بیٹے کی اولاد میں موروثی طور پر چلتے ہوئے عثمان بن طلحہ تک پہنچ گئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر تھے۔ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ «ہم دور جاہلیت میں پیر اور جمعرات کے روز خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا کرتے تھے۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کعبے کے اندر داخل ہوئے تو میں اللہ کے نبی کو زبردستی باہر لے آیا‘‘۔
انھو ں نے مجھ سے فرمایا « اے عثمان ایک روز تُو اس چابی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گا»۔
سنہ 8 ہجری میں فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تا کہ ان سے بیت اللہ کی چابی لے لیں۔ انو ں نے اپنی ناپسندیدگی کے ساتھ چابی حوالے کردی۔ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے بیت اللہ کو کھولا اور اس میں داخل ہو کر تمام بُتوں کو توڑ ڈالا۔ اس کو آب زمزم سے دھویا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ یہاں سےغسلِ کعبہ کی سنت کا آغاز ہوا۔
اس موقع پر سورت النساء کی یہ آیت نازل ہوئی:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا۔
ترجمہ : تحقیق اللہ تیںّه حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کولوٹا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس آیت کو دہراتے ہوئے کعبے سے باہر آئے اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بُلایا۔ ان سے فرمایا کہ یہ لو اپنی چابی۔ آج تو نیکی اور وفا کا دن ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس کو ہمیشہ کے واسطے لے لو اور کسی ظالم کے سوا یہ چابی تم سے کوئی نہیں چھینے گا۔ اللہ کے نبی نے عثمان بن طلحہ کو پرانی بات یاد دلائی اور فرمایا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ایک روز یہ چابی میرے ہاتھ میں ہو گی۔ اس پر عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں اور ساتھ ہی کلمہ شہادت پڑھ لیا۔ بعد ازاں انو ں نے اپنے بعد والی شخصیت کو چابی حوالے کی اور خود اللہ کے نبی کے ساتھ مدینہ ہجرت کر لی۔ وہ وفات تک مدینہ منورہ میں رہے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
سعودی دور میں بیت اللہ کی کلید برداری
محی الدین الہاشمی نے بتایا کہ بیت اللہ کی خدمت گزاری آج تک بنو شیبہ خاندان کے پاس ہے۔اس زمانے کے تمام تر کلید برداروں کا تعلق شيخ محمد بن زين العابدين بن عبدالمعطی الشیبی سے ہے۔ وہ 43 برس تک بیت اللہ کے کلید بردار رہے اور 1253 ہجری میں وفات پائی۔ شیخ کے بعد کلیدِ کعبہ ان کے سب سے بڑے بیٹے عبدالقادر ، پھر ان کے بھائی سلیمان ، پھر ان کے بھائی احمد اور پھر ان کے بھائی عبداللہ کے ہاتھ میں آئی۔
اس کے بعد کلید برداری اگلی نسل میں منتقل ہو کر شیخ عبدالقادر بن علی بن محمد بن زين العابدين الشيبی تک پہنچی۔ وہ مملکت سعودی عرب کو متحد صورت میں دیکھنے والے پہلے کلید بردار تھے۔ ان کی وفات 1351 ہجری میں ہوئی۔
پھر کلید کعبہ محمد بن محمد صالح الشيبی کو ملی تھی۔ وہ بالعموم بیمار رہتے تھے۔ لہذا انہوں نے کلید برداری شیخ عبدالله بن عبدالقادر الشيبی کے حوالے کر دی۔ شیخ کے بعد ان کے بیٹے امین ، طہ اور پھر عاصم بالترتیب اپنے والد کے جاں نشیں بنے۔ ان کے بعد کلید کعبہ شیخ عبداللہ کے بھتیجے طلحہ بن حسن الشیبی کو ملی۔ ان کے بعد شیخ عبدالعزيز بن عبدالله بن عبدالقادر الشيبی کے ہاتھوں میں آئی جو ذوالحجہ 1431 ہجری میں وفات پا گئے۔ اس کے بعد چار برس تک کلیدِ کعبہ شیخ عبدالقادر بن طه بن عبد الله الشيبی کے پاس رہی۔ اس عرصے میں سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے حکم پر بیت اللہ کا قُفل (تالا) بھی تبدیل کیا گیا۔ شیخ عبدالقادر 29/12/1435 ہجری کو اپنے مرض کے ساتھ طویل عرصے سے جاری جنگ ہار بیٹھے۔ ان کے بعد شیخ کے چچا زاد بھائی شیخ ڈاکٹر صالح بن زین العابدین الشیبی کلید برداری کے جاں نشیں بنے۔
حرمین کے امور کے محقق محی الدین الہاشمی نے بتایا کہ حالیہ عرصے میں خانہ کعبہ کے خدمت گزار کی ذمے داری اس کا قُفل کھولنے اور بند کرنے تک محدود ہو گئی ہے۔ مملکت کے مہمانوں کی موجودگی کی صورت میں شاہی دفتر ، وزارت داخلہ اور ایمرجنسی فورسز کے ذریعے کلید بردار کے ساتھ کوآرڈی نیشن کی جاتی ہے۔ جہاں تک 15 محرم کو غسل کعبہ کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہر سال شاہی فرمان کے بعد مکہ مکرمہ کے گورنر ہاؤس کے ذریعے کلید بردار شخصیت کے ساتھ کوآرڈی نیشن عمل میں لائی جاتی ہے۔ مسجد حرام میں حالیہ توسیع کے کام اور شدید رش کے سبب شعبان کے مہینے میں غسل کعبہ کو ختم کر کے اب سال میں ایک مرتبہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔
ہر سال ذوالحجہ کے آغاز میں بیت اللہ کا نیا غلاف «کِسوہ» کعبے کے سینئر کلید بردار کے حوالے کیا جاتا ہے تا کہ اس کو وقوفِ عرفہ کے روز بیت اللہ پر ڈالا جا سکے۔ غلافِ کعبہ حوالے کرنے کی تقریب «کسوہ» کی تیار گاہ شاہ عبدالعزیز کمپلیکس میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس موقع پر مسجد حرام اور مسجد نبوی کے امور کے سربراہ جناب شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس ، کمپلیکس کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر محمد بن عبداللہ باجوده اور ذمے داروں اور خدمت گاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔
حرمین شریفین کے امور کے محقق محی الدین الہاشمی کے مطابق تاریخی طور پر خانہ کعبہ کی خدمت کا آغاز حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے زمانے سے ہوا جب ان دونوں باپ بیٹے نے اللہ کے گھر کی بنیادیں قائم کیں۔ خدمت گاری کے امور میں بیت اللہ کو کھولنا ، بند کرنا ، صاف کرنا ، غسل دینا ، اس کا غلاف چڑھانا ، غلاف پھٹ جانے یا ادھڑ جانے کی صورت میں اس کو پھر سے درست کرنا اور بیت اللہ کے زائرین کے استقبال سے متعلق امور کے علاوہ مقامِ ابراہیم کی نگرانی بھی شامل ہے۔
بیت اللہ کے پہلے خدمت گار
الہاشمی کے مطابق ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو کعبے کی خدمت گاری کے علاوہ بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کو پانی پلانے کی ذمے داری بھی سونپی تھی۔ حضرت اسماعیل کی وفات کے بعد جرہم قبیلے نے اُن کی اولاد سے یہ ذمے داری چھین لی۔
کچھ عرصے کے بعد خزاعہ قبیلے نے جرہم قبیلے سے کعبے کی خدمت گاری لے لی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّ امجد قصی بن کلاب نے اس کو واپس لے لیا کیونکہ وہ خود اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ انھیں مکہ مکرمہ کی سرداری ملی اور ساتھ ہی خدمت گاری کی تمام تر ذمے داریاں بھی واپس ہاتھ آ گئیں۔ قصی بن کلاب کے تین بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سب سے بڑے عبدالدار (بنو شیبہ کے جد امجد) تھے ، ان کے بعد عبد مناف (ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد) تھے اور ان کے بعد عبد العزىٰ تھے۔ چوں کہ عبد مناف اپنی دانش مندی ، طاقت اور ٹھوس رائے کے سبب تمام قبائل میں سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے تھے لہذا ان کے والد نے اپنے بیٹے کو کعبے کی خدمت اور دیگر متعلقہ ذمے داریاں سونپ دیں۔ بعد ازاں قصی نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو بھی خدمت گاری کا شرف عطا کرنے کے واسطے کعبے کی کلید برداری عبدالدار کے حوالے کر دی جب کہ حجاج کرام کو پانی پلانے اور کھانا کھلانے کی ذمے داری عبد مناف کے پاس ہی رہی۔
اسلام کے دور میں خدمت گاری اور کلید برداری
محی الدین الہاشمی کے مطابق کلید برداری کی ذمے داری عبدالدار کے سب سے بڑے بیٹے کی اولاد میں موروثی طور پر چلتے ہوئے عثمان بن طلحہ تک پہنچ گئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر تھے۔ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ «ہم دور جاہلیت میں پیر اور جمعرات کے روز خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا کرتے تھے۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کعبے کے اندر داخل ہوئے تو میں اللہ کے نبی کو زبردستی باہر لے آیا‘‘۔
انھو ں نے مجھ سے فرمایا « اے عثمان ایک روز تُو اس چابی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گا»۔
سنہ 8 ہجری میں فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تا کہ ان سے بیت اللہ کی چابی لے لیں۔ انو ں نے اپنی ناپسندیدگی کے ساتھ چابی حوالے کردی۔ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے بیت اللہ کو کھولا اور اس میں داخل ہو کر تمام بُتوں کو توڑ ڈالا۔ اس کو آب زمزم سے دھویا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ یہاں سےغسلِ کعبہ کی سنت کا آغاز ہوا۔
اس موقع پر سورت النساء کی یہ آیت نازل ہوئی:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا۔
ترجمہ : تحقیق اللہ تیںّه حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کولوٹا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس آیت کو دہراتے ہوئے کعبے سے باہر آئے اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بُلایا۔ ان سے فرمایا کہ یہ لو اپنی چابی۔ آج تو نیکی اور وفا کا دن ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس کو ہمیشہ کے واسطے لے لو اور کسی ظالم کے سوا یہ چابی تم سے کوئی نہیں چھینے گا۔ اللہ کے نبی نے عثمان بن طلحہ کو پرانی بات یاد دلائی اور فرمایا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ایک روز یہ چابی میرے ہاتھ میں ہو گی۔ اس پر عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں اور ساتھ ہی کلمہ شہادت پڑھ لیا۔ بعد ازاں انو ں نے اپنے بعد والی شخصیت کو چابی حوالے کی اور خود اللہ کے نبی کے ساتھ مدینہ ہجرت کر لی۔ وہ وفات تک مدینہ منورہ میں رہے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
سعودی دور میں بیت اللہ کی کلید برداری
محی الدین الہاشمی نے بتایا کہ بیت اللہ کی خدمت گزاری آج تک بنو شیبہ خاندان کے پاس ہے۔اس زمانے کے تمام تر کلید برداروں کا تعلق شيخ محمد بن زين العابدين بن عبدالمعطی الشیبی سے ہے۔ وہ 43 برس تک بیت اللہ کے کلید بردار رہے اور 1253 ہجری میں وفات پائی۔ شیخ کے بعد کلیدِ کعبہ ان کے سب سے بڑے بیٹے عبدالقادر ، پھر ان کے بھائی سلیمان ، پھر ان کے بھائی احمد اور پھر ان کے بھائی عبداللہ کے ہاتھ میں آئی۔
اس کے بعد کلید برداری اگلی نسل میں منتقل ہو کر شیخ عبدالقادر بن علی بن محمد بن زين العابدين الشيبی تک پہنچی۔ وہ مملکت سعودی عرب کو متحد صورت میں دیکھنے والے پہلے کلید بردار تھے۔ ان کی وفات 1351 ہجری میں ہوئی۔
پھر کلید کعبہ محمد بن محمد صالح الشيبی کو ملی تھی۔ وہ بالعموم بیمار رہتے تھے۔ لہذا انہوں نے کلید برداری شیخ عبدالله بن عبدالقادر الشيبی کے حوالے کر دی۔ شیخ کے بعد ان کے بیٹے امین ، طہ اور پھر عاصم بالترتیب اپنے والد کے جاں نشیں بنے۔ ان کے بعد کلید کعبہ شیخ عبداللہ کے بھتیجے طلحہ بن حسن الشیبی کو ملی۔ ان کے بعد شیخ عبدالعزيز بن عبدالله بن عبدالقادر الشيبی کے ہاتھوں میں آئی جو ذوالحجہ 1431 ہجری میں وفات پا گئے۔ اس کے بعد چار برس تک کلیدِ کعبہ شیخ عبدالقادر بن طه بن عبد الله الشيبی کے پاس رہی۔ اس عرصے میں سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے حکم پر بیت اللہ کا قُفل (تالا) بھی تبدیل کیا گیا۔ شیخ عبدالقادر 29/12/1435 ہجری کو اپنے مرض کے ساتھ طویل عرصے سے جاری جنگ ہار بیٹھے۔ ان کے بعد شیخ کے چچا زاد بھائی شیخ ڈاکٹر صالح بن زین العابدین الشیبی کلید برداری کے جاں نشیں بنے۔
حرمین کے امور کے محقق محی الدین الہاشمی نے بتایا کہ حالیہ عرصے میں خانہ کعبہ کے خدمت گزار کی ذمے داری اس کا قُفل کھولنے اور بند کرنے تک محدود ہو گئی ہے۔ مملکت کے مہمانوں کی موجودگی کی صورت میں شاہی دفتر ، وزارت داخلہ اور ایمرجنسی فورسز کے ذریعے کلید بردار کے ساتھ کوآرڈی نیشن کی جاتی ہے۔ جہاں تک 15 محرم کو غسل کعبہ کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہر سال شاہی فرمان کے بعد مکہ مکرمہ کے گورنر ہاؤس کے ذریعے کلید بردار شخصیت کے ساتھ کوآرڈی نیشن عمل میں لائی جاتی ہے۔ مسجد حرام میں حالیہ توسیع کے کام اور شدید رش کے سبب شعبان کے مہینے میں غسل کعبہ کو ختم کر کے اب سال میں ایک مرتبہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔
ہر سال ذوالحجہ کے آغاز میں بیت اللہ کا نیا غلاف «کِسوہ» کعبے کے سینئر کلید بردار کے حوالے کیا جاتا ہے تا کہ اس کو وقوفِ عرفہ کے روز بیت اللہ پر ڈالا جا سکے۔ غلافِ کعبہ حوالے کرنے کی تقریب «کسوہ» کی تیار گاہ شاہ عبدالعزیز کمپلیکس میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس موقع پر مسجد حرام اور مسجد نبوی کے امور کے سربراہ جناب شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس ، کمپلیکس کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر محمد بن عبداللہ باجوده اور ذمے داروں اور خدمت گاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔