فضل الرحیم اشرفی
حدیثِ مبارکہ ہے:’’ جس کے پاس سفر ِحج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر ، حج کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ جیسی برگزیدہ ہستیوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا اور اس بندگی کے طریقے کواسی طرح بجالانا جس طرح وہ ہزاروں برس قبل بجالائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے، یہی ملتِ ابراہیمی اور حقیقی اسلام ہے ۔یہی وہ روح اور باطنی احساس ہے جسے حاجی حضرات ان برگزیدہ ہستیوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔
اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے بدن اور سر کے بال منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں، نہ خوشبو لگاتے ہیں نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں‘ نہ سر ڈھانپتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ میں حاضر ہوکر پکارا: ترجمہ:’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ ان تمام حاجیوں کی زبانوں پر وہی تین چار ہزار سال پہلے کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں جہاں ان دونوں ہستیوں کے نقشِ قدم زمین پر پڑے۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہاجرہؑ نے پانی کی تلاش میں صفاو مروہ کے درمیان چکر لگائے۔
آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں، چلتے ہیں اورمخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں اورگناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہوکر اپنی گزشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں‘ خدا کے حضور گڑگڑاتے ہوئے روتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں، اور آئندہ زندگی میں اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا عہد کرتے ہیں‘ اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں۔ یہ احساس کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیم ؑ سے لے کر محمد رسول اللہ ؐ تک بہت سے انبیاء اسی حالت اور اسی صورت میں اس جگہ پہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی تار تار اور نس نس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔
ارشاد نبویؐ کے مطابق:’’ اپنے باپ ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ ‘‘ اور پھر یہ کہتے ہیں: ’’ میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (سورۃ الانعام) پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے: ’’میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا‘ میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے، اور میں سب سے پہلے فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام ) حج بیت اللہ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کرواپس آنے والوں کے ساتھ یقینا ارشاد نبویؐ کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حج بیت اللہ کرنے کی سعادت اور پھراس کی برکات سے مستفیض فرمائے، آمین۔ فرض حج نہ کرنے والے کے لیے لمحۂ فکریہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’ جس کے پاس سفر ِحج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔‘‘اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے، ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘ (رواہ الترمذی) حج کی فرضیت کا حکم رائج قول کے مطابق 9ھ میں آیا اور اگلے سال 10 ھ میں اپنے وصال سے صرف تین ماہ قبل رسول اللہ ؐنے صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ’’حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا۔‘‘(المائدہ) اس آیت میں تکمیلِ دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔
اگر بندے کو مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں ’’حج مبرور‘‘ کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا۔لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود فرض حج نہ کرے، اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبویؐ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی البتہ مشرکینِ عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے جس کے باعث ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔ باقی رہا یہ سوال کہ حج کس پر فرض ہوتا ہے تو اس بار ے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ روایت خاصی رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ’’ ایک شخص رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:سامان سفر اور سواری۔ ‘‘ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) قرآنِ مجید میں فرضیت حج کی شرط یہ بتائی گئی ہے کہ حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کر کے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اس آیت میں جو اجمال ہے غالباً سوال کرنے والے صحابیؓ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ ؐ نے یہ ہدایت فرمائی :’’ایک تو سواری کا انتظام جس پر مکہ معظمہ تک سفر کی جا سکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانہ سفر کو گزارنے کے لیے کافی ہو۔‘‘ فقہائے کرام نے ان اخراجات میں ان لوگوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت حج پر جانے والے کے ذمہ ہو . حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا :’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’ جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کواس کے گھر میں پہنچنے سے پہلے سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔‘‘ (مسنداحمد) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ بار بار حج اور عمرہ کی سعادت فرمائے اور حج مبرور نصیب فرمائے، آمین
حدیثِ مبارکہ ہے:’’ جس کے پاس سفر ِحج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر ، حج کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ جیسی برگزیدہ ہستیوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا اور اس بندگی کے طریقے کواسی طرح بجالانا جس طرح وہ ہزاروں برس قبل بجالائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے، یہی ملتِ ابراہیمی اور حقیقی اسلام ہے ۔یہی وہ روح اور باطنی احساس ہے جسے حاجی حضرات ان برگزیدہ ہستیوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔
اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے بدن اور سر کے بال منڈواتے ہیں نہ کٹواتے ہیں، نہ خوشبو لگاتے ہیں نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں‘ نہ سر ڈھانپتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ میں حاضر ہوکر پکارا: ترجمہ:’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ ان تمام حاجیوں کی زبانوں پر وہی تین چار ہزار سال پہلے کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں جہاں ان دونوں ہستیوں کے نقشِ قدم زمین پر پڑے۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہاجرہؑ نے پانی کی تلاش میں صفاو مروہ کے درمیان چکر لگائے۔
آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں، چلتے ہیں اورمخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں اورگناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہوکر اپنی گزشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں‘ خدا کے حضور گڑگڑاتے ہوئے روتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں، اور آئندہ زندگی میں اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا عہد کرتے ہیں‘ اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں۔ یہ احساس کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیم ؑ سے لے کر محمد رسول اللہ ؐ تک بہت سے انبیاء اسی حالت اور اسی صورت میں اس جگہ پہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کی تار تار اور نس نس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔
ارشاد نبویؐ کے مطابق:’’ اپنے باپ ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ ‘‘ اور پھر یہ کہتے ہیں: ’’ میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (سورۃ الانعام) پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے: ’’میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا‘ میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے، اور میں سب سے پہلے فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام ) حج بیت اللہ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کرواپس آنے والوں کے ساتھ یقینا ارشاد نبویؐ کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حج بیت اللہ کرنے کی سعادت اور پھراس کی برکات سے مستفیض فرمائے، آمین۔ فرض حج نہ کرنے والے کے لیے لمحۂ فکریہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’ جس کے پاس سفر ِحج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔‘‘اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے، ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘ (رواہ الترمذی) حج کی فرضیت کا حکم رائج قول کے مطابق 9ھ میں آیا اور اگلے سال 10 ھ میں اپنے وصال سے صرف تین ماہ قبل رسول اللہ ؐنے صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ’’حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا۔‘‘(المائدہ) اس آیت میں تکمیلِ دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔
اگر بندے کو مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں ’’حج مبرور‘‘ کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا۔لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود فرض حج نہ کرے، اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبویؐ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی البتہ مشرکینِ عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے جس کے باعث ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔ باقی رہا یہ سوال کہ حج کس پر فرض ہوتا ہے تو اس بار ے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ روایت خاصی رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ’’ ایک شخص رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:سامان سفر اور سواری۔ ‘‘ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) قرآنِ مجید میں فرضیت حج کی شرط یہ بتائی گئی ہے کہ حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کر کے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اس آیت میں جو اجمال ہے غالباً سوال کرنے والے صحابیؓ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ ؐ نے یہ ہدایت فرمائی :’’ایک تو سواری کا انتظام جس پر مکہ معظمہ تک سفر کی جا سکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانہ سفر کو گزارنے کے لیے کافی ہو۔‘‘ فقہائے کرام نے ان اخراجات میں ان لوگوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت حج پر جانے والے کے ذمہ ہو . حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا :’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’ جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کواس کے گھر میں پہنچنے سے پہلے سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔‘‘ (مسنداحمد) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ بار بار حج اور عمرہ کی سعادت فرمائے اور حج مبرور نصیب فرمائے، آمین