اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں ۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائے گی۔
انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔
جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں ۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے ۔ اسلام میں ایمان اور اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔
اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں ۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتابِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْمٍ o ( القلم) بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہے۔ اورایسا کیوں نہ ہو آپ ﷺ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالکِ خلق عظیم ﷺ فرماتے ہیں ۔ بَعِثْتُ لِاَتَمِّمِ مَکَارَمِ اِخْلَاقٍ۔(حاکم ، مستدرک) میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔
یعنی میں اخلاقی شرافتوں کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپنا کر، اپنے اوپر نافذ کر کے تمہارے سامنے رکھنے اور ان کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ ہمارے آقا و مولا ﷺ کی پوری زند گی پیکرِ اخلاق تھی کیونکہ آپ ﷺ نے قرآنی اخلاقی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر لیا تھا۔ آپ ﷺ کا اخلاق قرآن کے احکام و ارشادات کا آ ئینہ تھا، قرآن کا کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کو آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں نہ سمو لیا ہو۔
اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَّۃٌ حَسَنَّۃٌ بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔ ایمان و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی صحت اخلاق ہے بلکہ عبادات و تعلیمات اسلامی کا لب لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔
اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلْقًا ’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔ اَحْسَنُکُمْ اَحْسَنُکُمْ خُلْقاً تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔ اخلاق کیا ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری بد خوئی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔
‘‘ یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے اور تم اس کے جواب میں اسے دعا دو تو ایک دن اسے خود بخود شرم آئے گی کہ میں تو اسے گالی دیتا ہوں اور وہ مجھے جواب میں دعا دیتا ہے تو مجھے شرم آنی چاہیے کیوں نہ میں بھی اسے دعا دوں اور اس کی تعریف کروں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے جو میری گالی کے جواب میں دعا دیتا ہے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتا۔ اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔
اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرنے کا موجد بنتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقیناًایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا۔
انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں ، بلکہ اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔
جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں ۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے ۔ اسلام میں ایمان اور اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔
اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں ۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتابِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْمٍ o ( القلم) بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہے۔ اورایسا کیوں نہ ہو آپ ﷺ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالکِ خلق عظیم ﷺ فرماتے ہیں ۔ بَعِثْتُ لِاَتَمِّمِ مَکَارَمِ اِخْلَاقٍ۔(حاکم ، مستدرک) میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔
یعنی میں اخلاقی شرافتوں کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپنا کر، اپنے اوپر نافذ کر کے تمہارے سامنے رکھنے اور ان کو اسوہ حسنہ بنا کر پیش کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ ہمارے آقا و مولا ﷺ کی پوری زند گی پیکرِ اخلاق تھی کیونکہ آپ ﷺ نے قرآنی اخلاقی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر لیا تھا۔ آپ ﷺ کا اخلاق قرآن کے احکام و ارشادات کا آ ئینہ تھا، قرآن کا کوئی خلق ایسا نہیں ہے جس کو آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں نہ سمو لیا ہو۔
اسی لیے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَّۃٌ حَسَنَّۃٌ بے شک تمہارے لیے اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تکمیل کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے میں بہترین نمونہ ہے۔ ایمان و عبادت کی درستگی کی عملی نشانی صحت اخلاق ہے بلکہ عبادات و تعلیمات اسلامی کا لب لباب اخلاق کو سنوارنا اور نکھارنا ہے جس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے۔
اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلْقًا ’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہو‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔ اَحْسَنُکُمْ اَحْسَنُکُمْ خُلْقاً تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے ا عتبار سے بہتر ہے۔ اخلاق کیا ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے اخلاق کی تربیت دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم جواب میں اس کو دعا دو،یعنی گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ دعا اور اچھے الفاظ سے دو۔ جو تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو، جو تمہاری بد خوئی کرے تم اس کی تعریف اور اچھائی بیان کرو، جو تم پر زیادتی کرے تم اسے معاف کر دو۔
‘‘ یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے اور تم اس کے جواب میں اسے دعا دو تو ایک دن اسے خود بخود شرم آئے گی کہ میں تو اسے گالی دیتا ہوں اور وہ مجھے جواب میں دعا دیتا ہے تو مجھے شرم آنی چاہیے کیوں نہ میں بھی اسے دعا دوں اور اس کی تعریف کروں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے جو میری گالی کے جواب میں دعا دیتا ہے، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتا۔ اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔
اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرنے کا موجد بنتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقیناًایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا۔