-A +A
راحت علی صدیقی قاسمی راحت علی صدیقی قاسمی رابطہ : 9557942062 عشق فطرت انسانی کی معراج ہے ، حیات جاودانی کا باعث ہے ،کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے ،رفعت و بلندی کے حصول کا وسیلہ ہے ،جذبۂ عشق ہر انسان کے قلب میں مستور ہوتا ہے ،احوال و کوائف اسے بھڑکاتے ہیں ، اس کے ظہور کا سبب بنتے ہیں اور کائنات میں بسنے والے افراد عشق کے واقعات کا دیدار کرتے ہیں ،تاریخ انہیں محفوظ کرلیتی ہے ،زمانہ انہیں حکایات و تمثیلات کا لباس عطا کرتا ہے، صدیوں تک ان واقعات کو حافظہ اپنے اندر سموئے رکھتا ہے ،چوںکہ عشق ناقابل یقین صورت حال کو جنم دیتا ہے ، اسی لئے عقل اس سے ہمیشہ مات کھا جاتی ہے، عشق کی داستان عجب ہے ،تنہائی کو محفل گردانتا ہے ،بزم کو ویرانہ سمجھتا ہے ،آسائش میں کوفت محسوس کرتا ہے ،تکلیف میں چہک اٹھتا ہے، آبلہ پاء کو باعث وجد خیال کرتا ہے ،تپتے ریت کو آبلوں کے پانی سے ٹھنڈا کرنے کی سعیٔ پیہم کرتا ہے اور ریگستان میں نقش پا ثبت کردیتا ہے ، آنسوؤں سے بنجر زمین کو سرسبز و شاداب کرنے کی کوشش کرتا ہے ، کبھی پہاڑ کو تودہ ریت کی مانند ختم کردیتا کبھی دودھ کی نہر نکالتا ہے ، کبھی نیزوں بھالوں اور برچھیوں کی نوک پر بھی محبوب کا نام پکارتا ہے اور ثابت کرتا ہے ،’’ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے‘‘ کبھی مسکراتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے، اور دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوجاتا ہے ،یہی عشق کا اعجاز اور بڑپن ہے ۔ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی اس کی کیفیات کا عالم یہی ہے ،چوںکہ عشق انسانی فطرت کا جزو ہے ،محسن و منعم سے محبت ہونا بشری تقاضہ ہے، انسانیت کی علامت ہے اور اللہ تبارک و تعالی سے زیادہ کوئی محسن نہیں ہو سکتا ، اللہ سے زیادہ کوئی منعم نہیں ہوسکتا ، کائنات چاند ،ستارے ، سیارے ، زمین و آسمان ، رزق غذا ،حسن و جمال ، مال و متاع ، طاقت و قوت تمام چیزیں اس کے احسان کا مظہر ہیں ،اس کے انعام کی روشن دلیلیں ،انسان سے باری تعالی کی محبت کی علامتیں ہیں ۔

چنانچہ فطرت انسانی خالق کائنات سے محبت کو باعث سکون گردانتی ہے ،خدا سے محبت کے اظہار کو اپنی بے چین روح کے لئے تسکین حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے ، فطرت مچلتی ہے ،خدا سے لپٹ جائے ،اس سے محبت کا اظہار کرے ،اس کی یاد میں پراگندہ حال ہوجائے ،اس کی محبت میں بوس و کنار کرے ،صحراؤں کی خاک چھانے ،دیوانوں کی طرح پتھر پھینکے ،محبوب کی یاد میں پاگلوں کی طرح دوڑے ،اسی کیفیت کو تسکین بخشنے کے لئے مالک حقیقی نے سفر حج کو فرض کیا ہے ،میرے بندہ میرے دربار میں آجا ،ہمسایوں رفیقوں عزیزوں کو چھوڑ کر ،اپنا وطن اپنے لوگ اپنی مٹی سب سے جدا ہو کر ،کوسوں دور ہماری محبت میں چلا آ ،موسم کی تبدیلی برداشت کر ،سفر کی صعوبتیں جھیل ،دیوانوں کا لباس اختیار کر ، مجذوبوں کی وضع قطع بنا ، عاشقوں کی سی چال ڈھال اختیار کر ،بالوں اور ناخونوں سے دیوانگی کا اظہار ہونا چاہئے ،اعمال سے عشق کا اظہار ہونا چاہئے ، بڑی وضع سے خراما خراما چلتا تھا ،اب دوڑ لگا ،پہاڑوں کی اونچائی پر جذبۂ محبت سے شرسار ہو کر چڑھ ،شیطان کو کنکریاں مار ،عشاء مغرب ساتھ ادا کرلے ،عصر مغرب ساتھ کرلے مکمل دیوانگی کا اظہار کر ،سراپا عاشق بن جا ،ہمارے نام کا ورد کر ،ہمارے نام کی رٹ لگا اور سچا عاشق بن ۔


حج کے ارکان و اعمال پر غور کیاجائے تو یہی احساس ہوتا ہے ،جیسے اللہ تعالی ہمیں تسکین بخشنے اور اظہار محبت کرنے کے طریقے سکھلا رہا ہے،انسان کو اپنی قربت کا تحفہ بخش رہا ہے ،اپنی محبت کا قیمتی جوہر عطا کر رہا ہے اور غم عشق کی دولت سے مالا مال کر رہا ہے ، اس کی فطرت کو فطرت سلیمہ میں تبدیل کر رہا ہے اور قلب میں پوشیدہ محبت کا امتحان لے رہا ہے ،جانچ رہا ہے ،ہم اس کے احسانات و انعامات کو سمجھے ہیں یا نہیں ،اس کی نوازشات و عنایات ہمیں نظر آئیں یا نہیں ،ہم کس حدتک اس کی دیوانگی کا جوہر حاصل کرپائے ہیں ،سفر حج ان ان کیفیات کو عیاں کرتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے حج کی ادائیگی پر بے پناہ انعام رکھا ہے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اگر حج کے دوران کسی شخص سے کسی شہوانی فعل کا ارتکاب نہیں ہوتا ،تو وہ حج سے ایسا لوٹتا ہے ،جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

(بخاری ،مسلم ) اخلاص کے ساتھ حج کی ادائیگی انسان کی مغفرت اور گناہوں سے چھٹکارہ کا باعث بنتی ہے ،عورتوں اور ضعیفوں کے لئے حج کو جہاد قرار دیا گیا ،منافع کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ،انسان عالمی سطح پر مسلمانوں کے احوال پرمطلع ہوتا ہے ،ذہن میں وسعت اور فکر میں گہرائی و گیرائی آتی ہے ،قرآن حج کے تعلق سے کہتا ،لیشہدوا منافع لہم ویذکراسم اللّٰہ فی ایام معلومات۔(سورہ حج )تاکہ پہنچیں اپنے فائدوں کی جگہوں پر اور پڑھیں اللہ کا نام متعین دنوں میں ،اس آیت نے واضح کردیا انسان ایام حج میں جن مقامات کی زیارت کرتا ہے ،ان میں اس کے لئے فائدہ چھپا ہوا ہے ،وہ فائدہ کیا ہے ،اس کے تعلق سے مولانامفتی محمد تقی عثمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اصل مقصد تو دنیوی و اخروی فوائد کی تحصیل ہے ،مثلا حج اور عمرہ اور دوسری عبادات کے ذریعہ انسان اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے ،اور ترقی حاصل کرتا ہے ،لیکن اس عظیم الشان اجتماع میں بہت سے سیاسی تمدنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں‘‘ (تفسیر عثمانی )حج میں انسان کے لئے بے پناہ فائدہ مضمر ہیں ،اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کنجیاں موجود ہیں ،دیار خدا میں اس کے مرتبہ کی بلندی کے اسباب ہیں اور اس بڑھ کر قابل رشک بات کیا ہوگی؟ احادیث میں حاجیوں کو اللہ کا مہمان کہا گیا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ حاجی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ۔(نساء ) اسی طرح روایت میں آتا ہے کہ حاجی کی زندگی قابل رشک اور موت قابل فخر ہوتی ہے ،اگر حاجی حالت احرام میں وفات پاجائے ،تو قیامت کے دن لبیک اللھم لبیک پکارتا ہوا اٹھایاجائے گا۔(بخاری و مسلم) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا مقام کتنا بلند ہے ،لیکن عشق و محبت خلوص و وفا جو حج ہی نہیں تمام عبادتوں کی روح ہے ،اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ،محنت و مشقت سے بھرا محض تعب و تھکن اور کسی بھی شی کے حصول کا ذریعہ نہیں ہوگا ،اس لئے حج کی ادائیگی خالصتا اللہ کے لئے ہو اور اللہ کی محبت میں ادا کیا جائے تو اس پر بے شمار انعام و اکرام کی بارش ہوگی اور اگر حج فرض ہونے کے بعد اس کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو عتاب اور سزا کے مستحق ہوںگے۔

وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ ومن کفر فان اللّٰہ غنی عن العٰلمین۔ (سورہ آل عمران ) سفر کی استطاعت اور حج ادا کرنے کی قدرت کے بعد اگر کوئی شخص حج ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالی عالموں سے بے نیاز ہے ،حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنے پر عمر رضی اللہ جزیہ (ٹیکس )کرنے کا اعلان کرتے ہیں،اللہ کے نبی ؐیہودی اور نصرانی ہو کر مرنے پر پرواہ نہیں کرتے۔

ان احادیث کے ضمن میں سمجھا جا سکتا ہے حج کتنی اہم عبادت ہے اور حد درجہ اخلاص اس سفر عشق میں درکار ہے ،مگر بہت سے لوگوں کا حال یہ ہے کہ فلسفۂ عشق کی روح کو مسخ کرتے ہیں ،دنیا کی رنگینی سے متاثر ہوجاتے ہیں ،نام و نمود کا خیال جذبہ عشق پر اثر انداز ہوتا ہے ،گھر سے نکلتے ہیں ،تو ڈھول نگاڑے بجاتے ہوئے ،سفر حج پر بارات کا گماں ہوتا ہے ،مکہ پہنچتے ہیں ،تو خانہ کعبہ کے ساتھ سیلفی کھینچ کر سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرتے ہیں ،دنیا بھر کے سامان خریدتے ہیں، حج کو عبادت نہیں بلکہ خرید و فروخت کا سفر بنادیتے ہیں، عشق کو شرمسار کردیتے ہیں اور خرد کو فتح سے ہمکنار کردیتے ہیں، حالاںکہ شاعر کہتا ہے :عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ جب اللہ تعالی نے اتنے عظیم فریضہ کی ادائیگی کا موقع دے دیا،اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ انسانی جھوٹی شہرت کی فکر کرے، عزت و ناموس کی فکر کرے ،جنوں کی لغت میں یہ لفظ ہی کہاں ہیں ،وہ تکمیل مقصد کی جانب گامزن ہے ،ہمیں بھی اسی طرح اسی طرح اس موقع پر تیاری کرنی جیسے ایک عاشق اپنے معشوق سے ملتا ہے اور بارگاہ ایزدی میں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائے اور فریضۂ حج میں جو کیفیت مطلوب ہے اس سے ہمیں نواز دے ۔آمین (بصیرت فیچرس)