اللہ رب العزت کی جانب سے مسلمانوں پر حج فرض کیے جانے کے بعد سے عازمین حج کے قافلے متعدد راستے اختیار کرتے رہے ہیں۔ ان سب کا رخ اللہ کے پاک اور بزرگی والے گھر بیت العتیق کی جانب ہوتا تھا اور ان کے دل اسلام کے پانچویں رکن کو ادا کرنے کے لیے بے تاب ہوتے تھے۔
وقت کے ساتھ عازمین حج کے راستوں کے پھیلاؤ سے لوگوں کو اپنی تجارت میں نفع نظر آنے لگا اور ساتھ ہی ثقافتوں اور اہم معلومات بھی منتقل ہوئیں۔
گزشتہ صدیوں کے دوران ان راستوں پر نقل و حرکت گنجان رہتی تھی۔ ان راستوں کا استعمال حج کی غرض تک محدود نہ تھا بلکہ مختلف سواریوں کے حامل افراد پورے سال ان راستوں پر آتے جاتے نظر آتے تھے۔
مذکورہ متعدد راستوں میں نمایاں طور پر مشہور ہونے والے راستوں میں عراقی ، شامی ، مصری ، یمنی اور عُمانی حاجیوں کے راستے شامل ہیں۔
مسلمان خلفاء اور سلاطین نے حج کے راستوں کو بھرپور توجہ دی۔ اس کا ثبوت امیرِ حج کے منصب کا نمودار ہونا ہے جس کے ذمے حجاج کی دیکھ بھال، راستوں پر پڑاؤ کے مقامات قائم کرنا اور پڑاؤ کے مختلف مقامات کے درمیان فاصلوں کا تعین کرنا شامل ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس دوران سرائے اور آرام گاہیں بنائی گئی تا کہ حجاج اور پیدل چلنے والے اپنے سفر کے دوران یہاں ٹھہر کر تازم دم ہو سکیں۔
تاریخی ذرائع نے 7 مرکزی راستوں کو محفوظ رکھا جو اسلامی ریاست کے مختلف علاقوں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ آتے ہیں۔ یہ راستے درج ذیل ہیں :
1 ۔ کوفہ / مکہ مکرمہ راستہ: یہ اسلامی دور میں حج اور تجارت کے اہم ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ راستہ خلیفہ ہارون الرشید کی زوجہ محترمہ زبیدہ سے منسوب ہو کر «راہِ زبیدہ» کے نام سے مشہور ہوا۔ زبیدہ نے اس کے طرزِ تعمیر میں حصہ لیا تھا اور اس کا نام زمانوں کے گزرنے کے بعد بھی زندہ و جاوید رہا۔
2 ۔ بصرہ / مکہ راستہ : یہ اہمیت کے لحاظ سے دوسرے نمبر شمار کیا جاتا ہے جو بصرہ شہر سے شروع ہوتا ہے پھر جزیرہ عرب کے شمال مشرق سے گزرتا ہوا وادی باطن کے راستے مختلف صحراؤں کو چیرتا ہوا القصیم پہنچتا ہے جہاں میٹھے پانی ، زرخیز زمینوں اور چشموں کی بہتات ہے۔ یہاں سے یہ راستہ کوفہ - مکہ راستے کے متوازی چلتا ہے یہاں تک کہ ام خرمان کے پڑاؤ «اوطاس» کے پاس دونوں مل جاتے ہیں۔ ان کا ملاپ معدن النقرہ کے علاقے میں ہوتا ہے جہاں سے ایک راستہ نکل کر مدینہ منورہ کی جانب جاتا ہے۔
3 ۔ مصری حجاج کا راستہ : اس راستے کو مصری حجاج کے علاو مراکش ، اندلس اور افریقا کے عازمین حج مکہ مکرمہ پہنچنے کے واسطے استعمال کرتے ہیں۔ یہ جزیرہ نما سیناء کا رخ کرتے ہیں تا کہ «العقبہ» پہنچا جا سکے جو راستے کا پہلا پڑاؤ ہے۔ بعد ازاں عازمین حج حقل پھر الشرف اور پھر مدین سے گزرتے ہیں۔
4 ۔ شامی حجاج کا راستہ : یہ بلادِ شام کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مقامات مقدسہ سے ملاتا ہے۔ یہ راستہ تبوک نامی قصبے سے بھی گزرتا ہے اور اسی نسبت سے التبوکیہ کے نام سے جانا گیا۔
5 ۔ یمنی حجاج کے راستے : یہ حج کے وہ راستے ہیں جو پرانے زمانوں سے ہی یمن کو حجاز سے ملاتے رہے۔ لہذا یمن کے حجاج کے کئی راستے سامنے آئے اور ان کے روٹس تبدیل ہوتے رہے۔ اسی طرح یہ راستے یمن کے کئی اہم شہروں سے گزرتے ہیں جہاں سے یمنی عازمین حج کے گروہ مکہ کا رخ کرتے تھے۔ ان شہروں میں عدن ، تعز ، صنعاء ، زبید اور صعدہ شامل ہیں۔ یہ راستے بعض مقامات پر ایک دوسرے کے ساتھ ملتے بھی ہیں۔
۔ عُمانی حجاج کے دو راستے : ان میں ایک راستہ عمان سے یبرین کی سمت جاتا ہے ، وہاں سے بحرین اور پھر الیمامہ سے ہوتا ہوا ضریہ پہنچتا ہے۔
عمانی حجاج کے لیے ایک دوسرا راستہ بھی ہے جو فرق کی سمت جا کر پھر عوکلان ، ساحلِ ہباہ اور پھر شحر کے مقام پر پہنچتا ہے۔ یہاں سے پھر حاجیوں کے قافلے مکہ مکرمہ جانے والے ایک مرکزی یمنی راستے کو اپنا لیتے ہیں۔ بحر احمر کے متوازی راستہ مخلاف، الحردہ، عثر، مرسی ضنکان، السرین ہوتا ہوا الشعبیہ پہنچتا ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ اور پھر مکہ جاتا ہے۔
7 ۔ بحرین - یمامہ - مکہ مکرمہ حج راستہ : یہ جزیرہ عرب کے وسطی حصوں کو عبور کرتے ہوئے اس کے متعدد قصبوں اور علاقوں سے گزرتا ہے اور حجاز کو خلافت عباسیہ کے مرکز عراق سے ملاتا ہے۔ اس راستے کے عازمینِ حج کو اسلامی ریاست کی دیکھ بھال نصیب ہوئی بالخصوص اہم خدمات کی فراہمی اور دیگر راستوں کے مقابلے میں حجاج کو حاصل تحفظ کے حوالے سے ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔
وقت کے ساتھ عازمین حج کے راستوں کے پھیلاؤ سے لوگوں کو اپنی تجارت میں نفع نظر آنے لگا اور ساتھ ہی ثقافتوں اور اہم معلومات بھی منتقل ہوئیں۔
گزشتہ صدیوں کے دوران ان راستوں پر نقل و حرکت گنجان رہتی تھی۔ ان راستوں کا استعمال حج کی غرض تک محدود نہ تھا بلکہ مختلف سواریوں کے حامل افراد پورے سال ان راستوں پر آتے جاتے نظر آتے تھے۔
مذکورہ متعدد راستوں میں نمایاں طور پر مشہور ہونے والے راستوں میں عراقی ، شامی ، مصری ، یمنی اور عُمانی حاجیوں کے راستے شامل ہیں۔
مسلمان خلفاء اور سلاطین نے حج کے راستوں کو بھرپور توجہ دی۔ اس کا ثبوت امیرِ حج کے منصب کا نمودار ہونا ہے جس کے ذمے حجاج کی دیکھ بھال، راستوں پر پڑاؤ کے مقامات قائم کرنا اور پڑاؤ کے مختلف مقامات کے درمیان فاصلوں کا تعین کرنا شامل ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس دوران سرائے اور آرام گاہیں بنائی گئی تا کہ حجاج اور پیدل چلنے والے اپنے سفر کے دوران یہاں ٹھہر کر تازم دم ہو سکیں۔
تاریخی ذرائع نے 7 مرکزی راستوں کو محفوظ رکھا جو اسلامی ریاست کے مختلف علاقوں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ آتے ہیں۔ یہ راستے درج ذیل ہیں :
1 ۔ کوفہ / مکہ مکرمہ راستہ: یہ اسلامی دور میں حج اور تجارت کے اہم ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ راستہ خلیفہ ہارون الرشید کی زوجہ محترمہ زبیدہ سے منسوب ہو کر «راہِ زبیدہ» کے نام سے مشہور ہوا۔ زبیدہ نے اس کے طرزِ تعمیر میں حصہ لیا تھا اور اس کا نام زمانوں کے گزرنے کے بعد بھی زندہ و جاوید رہا۔
2 ۔ بصرہ / مکہ راستہ : یہ اہمیت کے لحاظ سے دوسرے نمبر شمار کیا جاتا ہے جو بصرہ شہر سے شروع ہوتا ہے پھر جزیرہ عرب کے شمال مشرق سے گزرتا ہوا وادی باطن کے راستے مختلف صحراؤں کو چیرتا ہوا القصیم پہنچتا ہے جہاں میٹھے پانی ، زرخیز زمینوں اور چشموں کی بہتات ہے۔ یہاں سے یہ راستہ کوفہ - مکہ راستے کے متوازی چلتا ہے یہاں تک کہ ام خرمان کے پڑاؤ «اوطاس» کے پاس دونوں مل جاتے ہیں۔ ان کا ملاپ معدن النقرہ کے علاقے میں ہوتا ہے جہاں سے ایک راستہ نکل کر مدینہ منورہ کی جانب جاتا ہے۔
3 ۔ مصری حجاج کا راستہ : اس راستے کو مصری حجاج کے علاو مراکش ، اندلس اور افریقا کے عازمین حج مکہ مکرمہ پہنچنے کے واسطے استعمال کرتے ہیں۔ یہ جزیرہ نما سیناء کا رخ کرتے ہیں تا کہ «العقبہ» پہنچا جا سکے جو راستے کا پہلا پڑاؤ ہے۔ بعد ازاں عازمین حج حقل پھر الشرف اور پھر مدین سے گزرتے ہیں۔
4 ۔ شامی حجاج کا راستہ : یہ بلادِ شام کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مقامات مقدسہ سے ملاتا ہے۔ یہ راستہ تبوک نامی قصبے سے بھی گزرتا ہے اور اسی نسبت سے التبوکیہ کے نام سے جانا گیا۔
5 ۔ یمنی حجاج کے راستے : یہ حج کے وہ راستے ہیں جو پرانے زمانوں سے ہی یمن کو حجاز سے ملاتے رہے۔ لہذا یمن کے حجاج کے کئی راستے سامنے آئے اور ان کے روٹس تبدیل ہوتے رہے۔ اسی طرح یہ راستے یمن کے کئی اہم شہروں سے گزرتے ہیں جہاں سے یمنی عازمین حج کے گروہ مکہ کا رخ کرتے تھے۔ ان شہروں میں عدن ، تعز ، صنعاء ، زبید اور صعدہ شامل ہیں۔ یہ راستے بعض مقامات پر ایک دوسرے کے ساتھ ملتے بھی ہیں۔
۔ عُمانی حجاج کے دو راستے : ان میں ایک راستہ عمان سے یبرین کی سمت جاتا ہے ، وہاں سے بحرین اور پھر الیمامہ سے ہوتا ہوا ضریہ پہنچتا ہے۔
عمانی حجاج کے لیے ایک دوسرا راستہ بھی ہے جو فرق کی سمت جا کر پھر عوکلان ، ساحلِ ہباہ اور پھر شحر کے مقام پر پہنچتا ہے۔ یہاں سے پھر حاجیوں کے قافلے مکہ مکرمہ جانے والے ایک مرکزی یمنی راستے کو اپنا لیتے ہیں۔ بحر احمر کے متوازی راستہ مخلاف، الحردہ، عثر، مرسی ضنکان، السرین ہوتا ہوا الشعبیہ پہنچتا ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ اور پھر مکہ جاتا ہے۔
7 ۔ بحرین - یمامہ - مکہ مکرمہ حج راستہ : یہ جزیرہ عرب کے وسطی حصوں کو عبور کرتے ہوئے اس کے متعدد قصبوں اور علاقوں سے گزرتا ہے اور حجاز کو خلافت عباسیہ کے مرکز عراق سے ملاتا ہے۔ اس راستے کے عازمینِ حج کو اسلامی ریاست کی دیکھ بھال نصیب ہوئی بالخصوص اہم خدمات کی فراہمی اور دیگر راستوں کے مقابلے میں حجاج کو حاصل تحفظ کے حوالے سے ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔