روہنگیا مسلمان کشتیوں پر سوار ہوکر بنگلہ دیش کی جانب جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں مہاجرین کے لیے قائم کیمپ بے گھر ہوکر آنے والے روہنگیا مسلمانوں سے بھر گئے ہیں جبکہ گذشتہ سات روز میں میانمر فوج کی فائرنگ اور بم دھماکوں میں مرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چار سو سے زیادہ ہوگئی ہے۔
امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ میانمر کے مغربی ریاست راکھین سے تشدد سے بچ کر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی ترجمان ویویان تان نے اتوار کے روز ایک بیان میں بتایا ہے کہ راکھین میں 25 اگست کو تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے تہتر ہزار کے لگ بھگ افراد سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔
تشدد کا یہ نیا سلسلہ روہنگیا مزاحمت کاروں کے اپنے دفاع میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نسلی اقلیت کے خلاف پرتشدد مظالم کو رکوانے کے لیے یہ حملے کررہے ہیں لیکن اس کے رد عمل میں میانمر کی سکیورٹی فورسز نے ایک بڑی کارروائی شروع کردی تھی اور ا س کے بہ قول اس کا مقصد مزاحمت کاروں کی تطہیر تھا۔
ایک اور امدادی کارکن نے بتایا ہے کہ ہفتے کے روز گولیوں سے چھلنی پچاس سے زیادہ مہاجرین بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔انھں کاکس بازار کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ان مہاجرین نے بتایا ہے کہ کہ ان کے مکانوں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے اور روہنگیا وہاں زندہ دفن ہورہے ہیں۔
میانمر کے سکیورٹی حکام اور روہنگیا مزاحمت کار دونوں ایک دوسرے پر تشدد کو ہوا دینے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔فوج نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لڑائی میں چار سو سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ان میں زیادہ تر مزاحمت کار تھے۔
امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے افراد تنفس کی بیماریوں ، دوسرے امراض اور کم خوراکی کا شکار ہیں۔سرحدی علاقے میں موجود طبی سہولتیں ان کے علاج کے لیے ناکافی ہیں۔
بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں پہنچنے والے کریم نامی ایک مہاجر نے بتایا ہے کہ ’’ ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہوکر یہاں آئے ہیں۔فوج اور انتہا پسند راکھین ہمیں جلا رہے ہیں، ہمیں قتل کررہے ہیں اور ہمارے مکانوں اور دیہات کو نذر آتش کررہے ہیں‘‘۔
انھوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے لکڑی کی ایک کشتی کے ذریعے بنگلہ دیش میں اسمگل ہوکر آنے کے لیے خاندان کے ہر فرد کا بارہ ہزار ٹکا ( قریباً ڈیڑھ سو ڈالرز) ادا کیا ہے۔انھوں نے بتایا ہے کہ میانمر کے فوجیوں نے ساحلی شہر ماؤنگ ڈا کے نزدیک واقع کنا پارا میں ایک سو دس روہنگیا افرادکو ہلاک کردیا تھا اور ہر چیز کو تباہ کردیا ہے۔فوج نے مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کردیا ہے‘‘۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے میانمر میں تشدد سے متاثرہ علاقوں کا سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ پیش کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ 25 اگست کے بعد ریاست راکھین میں سترہ جگہوں پر سیکڑوں تباہ شدہ عمارتیں دیکھی گئی ہیں اور صرف ایک گاؤں چین خر لی میں قریباً سات سو مکانوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔
امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ میانمر کے مغربی ریاست راکھین سے تشدد سے بچ کر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی ترجمان ویویان تان نے اتوار کے روز ایک بیان میں بتایا ہے کہ راکھین میں 25 اگست کو تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے تہتر ہزار کے لگ بھگ افراد سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔
تشدد کا یہ نیا سلسلہ روہنگیا مزاحمت کاروں کے اپنے دفاع میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نسلی اقلیت کے خلاف پرتشدد مظالم کو رکوانے کے لیے یہ حملے کررہے ہیں لیکن اس کے رد عمل میں میانمر کی سکیورٹی فورسز نے ایک بڑی کارروائی شروع کردی تھی اور ا س کے بہ قول اس کا مقصد مزاحمت کاروں کی تطہیر تھا۔
ایک اور امدادی کارکن نے بتایا ہے کہ ہفتے کے روز گولیوں سے چھلنی پچاس سے زیادہ مہاجرین بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔انھں کاکس بازار کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ان مہاجرین نے بتایا ہے کہ کہ ان کے مکانوں کو بموں سے اڑایا جارہا ہے اور روہنگیا وہاں زندہ دفن ہورہے ہیں۔
میانمر کے سکیورٹی حکام اور روہنگیا مزاحمت کار دونوں ایک دوسرے پر تشدد کو ہوا دینے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔فوج نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لڑائی میں چار سو سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ان میں زیادہ تر مزاحمت کار تھے۔
امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے افراد تنفس کی بیماریوں ، دوسرے امراض اور کم خوراکی کا شکار ہیں۔سرحدی علاقے میں موجود طبی سہولتیں ان کے علاج کے لیے ناکافی ہیں۔
بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں پہنچنے والے کریم نامی ایک مہاجر نے بتایا ہے کہ ’’ ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہوکر یہاں آئے ہیں۔فوج اور انتہا پسند راکھین ہمیں جلا رہے ہیں، ہمیں قتل کررہے ہیں اور ہمارے مکانوں اور دیہات کو نذر آتش کررہے ہیں‘‘۔
انھوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے لکڑی کی ایک کشتی کے ذریعے بنگلہ دیش میں اسمگل ہوکر آنے کے لیے خاندان کے ہر فرد کا بارہ ہزار ٹکا ( قریباً ڈیڑھ سو ڈالرز) ادا کیا ہے۔انھوں نے بتایا ہے کہ میانمر کے فوجیوں نے ساحلی شہر ماؤنگ ڈا کے نزدیک واقع کنا پارا میں ایک سو دس روہنگیا افرادکو ہلاک کردیا تھا اور ہر چیز کو تباہ کردیا ہے۔فوج نے مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کردیا ہے‘‘۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے میانمر میں تشدد سے متاثرہ علاقوں کا سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ پیش کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ 25 اگست کے بعد ریاست راکھین میں سترہ جگہوں پر سیکڑوں تباہ شدہ عمارتیں دیکھی گئی ہیں اور صرف ایک گاؤں چین خر لی میں قریباً سات سو مکانوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔