پاکستان نے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برمی سکیورٹی فورسز اور بد ھ مت انتہا پسندوں کی تشدد آمیز کارروائیوں کے خاتمے کے لیے میانمر پر دباؤ ڈالے۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا المیہ دنیا کے ضمیر کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہےاور پاکستا ن انھیں انسانی امداد مہیا کرے گا۔
وزیر خارجہ جمعرات کو پاکستانی سفارت کاروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حالیہ دنوں میں روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لیے ملک بھر میں ریلیاں نکالی ہیں اور انھوں نےروہنگیا کی جبری بے دخلی پر میانمر کی لیڈر آنگ سان سوچی کی خاموشی اختیار کرنے پر مذمت کی ہے۔
میانمر کی مغربی ریاست راکھین میں 25 اگست کو تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کے بعد سے 146,000کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان پُرخطر سفر کر کے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔
امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ راکھین سے تشدد سے بچ کر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار میں مہاجرین کے لیے قائم کیمپ بھر گئے ہیں اور اب نئے آنے والے مہاجرین کے لیے ایک نیا کیمپ قائم کیا جارہا ہے۔۔
میانمر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کا یہ نیا سلسلہ مبینہ طور پر روہنگیا مزاحمت کاروں کے اپنے دفاع میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نسلی اقلیت کے خلاف پرتشدد مظالم کو رکوانے کے لیے یہ حملے کررہے ہیں لیکن اس کے رد عمل میں میانمر کی سکیورٹی فورسز نے ایک بڑی کارروائی شروع کردی تھی ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دو جارک کے مطابق عالمی خوراک پروگرام نے بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کو خوراک مہیا کرنے کے لیے ایک کروڑ تیرہ لاکھ ڈالرز کی امداد کی اپیل کی ہے۔انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے میانمر کی صورت حال سے متعلق سفارتی روابط جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء ناروے کے وزیر خارجہ نے میانمر کی لیڈر آنگ سان سو چی اور ان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے گروپوں کو تشدد سے متاثرہ ریاست راکھین میں امدادی سامان تقسیم کرنے کی اجازت دے۔
ناروے کے وزیر خارجہ بورژے برینڈی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ ان کی حکومت کو روہنگیا کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور ان کے خلاف تشدد میں اضافے پر گہری تشویش لاحق ہے۔انھوں نے کہا کہ تمام گروپوں کو ضبط وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے مگر انھوں نے آنگ سانگ سوچی کی قیادت میں حکام پر زوردیا ہے کہ شہریوں کو تشدد آمیز کارروائیوں سے بچانا اور ان کے انسانی حقوق کا تحفظ ان کی خصوصی ذمے داری ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا المیہ دنیا کے ضمیر کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہےاور پاکستا ن انھیں انسانی امداد مہیا کرے گا۔
وزیر خارجہ جمعرات کو پاکستانی سفارت کاروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حالیہ دنوں میں روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لیے ملک بھر میں ریلیاں نکالی ہیں اور انھوں نےروہنگیا کی جبری بے دخلی پر میانمر کی لیڈر آنگ سان سوچی کی خاموشی اختیار کرنے پر مذمت کی ہے۔
میانمر کی مغربی ریاست راکھین میں 25 اگست کو تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کے بعد سے 146,000کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان پُرخطر سفر کر کے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔
امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ راکھین سے تشدد سے بچ کر آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار میں مہاجرین کے لیے قائم کیمپ بھر گئے ہیں اور اب نئے آنے والے مہاجرین کے لیے ایک نیا کیمپ قائم کیا جارہا ہے۔۔
میانمر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کا یہ نیا سلسلہ مبینہ طور پر روہنگیا مزاحمت کاروں کے اپنے دفاع میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی چوکیوں پر حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نسلی اقلیت کے خلاف پرتشدد مظالم کو رکوانے کے لیے یہ حملے کررہے ہیں لیکن اس کے رد عمل میں میانمر کی سکیورٹی فورسز نے ایک بڑی کارروائی شروع کردی تھی ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دو جارک کے مطابق عالمی خوراک پروگرام نے بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کو خوراک مہیا کرنے کے لیے ایک کروڑ تیرہ لاکھ ڈالرز کی امداد کی اپیل کی ہے۔انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے میانمر کی صورت حال سے متعلق سفارتی روابط جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء ناروے کے وزیر خارجہ نے میانمر کی لیڈر آنگ سان سو چی اور ان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے گروپوں کو تشدد سے متاثرہ ریاست راکھین میں امدادی سامان تقسیم کرنے کی اجازت دے۔
ناروے کے وزیر خارجہ بورژے برینڈی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ ان کی حکومت کو روہنگیا کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور ان کے خلاف تشدد میں اضافے پر گہری تشویش لاحق ہے۔انھوں نے کہا کہ تمام گروپوں کو ضبط وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے مگر انھوں نے آنگ سانگ سوچی کی قیادت میں حکام پر زوردیا ہے کہ شہریوں کو تشدد آمیز کارروائیوں سے بچانا اور ان کے انسانی حقوق کا تحفظ ان کی خصوصی ذمے داری ہے۔