ہر سال حج بیت اللہ کے لئے دنیا کے کونے کونے سے مسلمان کھنچے کھنچے بیت اللہ کی جانب چلے آتے ہیں یہ وہ ایمانی کشش ہے جسے اسلام کے پانچویں رکن حج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اللہ برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم نے جب کعبہ اللہ کی تعمیر کی تھی ت وانہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس بے آب و گیاہ صحرا میں پوری دنیا سے اہل ایمان ملت ابراہیمی میں ہونے کے پروقار تصور کے ساتھ اپنی نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوے عمر بھر کی کمائیوں سے پس انداز کرکے حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ حج ایک فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ اپنے رب کی ربوبیت کو تسلیم کرتے ہوے امت محمدیہ اور ملت ابراہیمی کے ذی شان تمغے سروں پر سجاے اہل ایمان مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ حاضر ہوتے ہیں اور عشق و محبت کی شراب طہورا سے سیراب ہوکر اپنے گناہوں کی توبہ کی تکمیل کے ذریعے نئی زندگی کے آغاز کا اہتمام کرتے ہیں کیوں کہ آقاے نامدار ﷺ نے حج کے بعد حاجی کو مغفرت کی خوشخبری دے دی تھی ۔ مغفرت اور عفو کے اس حسین تحفے کے ساتھ اپنے اپنے وطن پہنچنے والے ضیوف الرحمن جب اہل و عیال میں پہنچتے ہیں ت وان کی شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جب انہیں ہر شخص حج کی سعادت پر مبارکباد دیتا ہے۔ لوگ برکت کے طور پر ان کے ہاتھ چومتے ہیں کہ جن ہاتھوں نے کعبہ اللہ کو چھوا ہوجن دست و بازو نے غلاف کعبہ اور ہجر اسود کا لمس حاصل کیا ہو جن نگاہوں نے روضہ اطہر کی زیارت کی ہو وہ یقینا قابل مبارکباد ہوتی ہیں۔